Published in Daily Express. This article is written by Afia Aslam.

اردو ، انگلش یا منگلش؟ یہ وہ الجھن ہے جو سلجھاتے نہیں سلجھتی، پہلی دونوں زبانوں کے بارے میں تو سب جانتے ہیں لیکن یہ تیسری زبان کس علاقے میں بولی جاتی ہے؟

زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں کیونکہ اس کی صدا آپ کو اپنے قریب ہی سے سنائی دے گی۔ اب یہ آپ کے مزاج پرگراں گزرتی ہے یا آپ اس کے عادی ہو چکے ہیں یہ آپ کی اپنی زبان سے قرب پر منحصر ہے۔

اکثر لوگ اس کو غیر ارادی طور پر اپنا بھی لیتے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اردو زبان کے قدردانوں کا ایک بہت بڑا طبقہ اس سے خاصہ نالاں بھی ہے اور فکرمند بھی۔ وہ اکثر اپنے بچوں کے لہجے اور ان کی زبان کے بارے میں فکر مند رہتے ہیں۔

اچھے اسکولوں میں پڑھنے کے باوجود بچے نہ ٹھیک سے اردو بول سکتے ہیں اور نہ انگریزی۔ انگریزی تو پھر بھی آ ہی جاتی ہے لیکن اردو سے زیادہ جو زبان وہ بولتے ہیں اس کو منگلش ہی کہا جا سکتا ہے یعنی اردو اور انگریزی کی ملی جلی کھچڑی نما زبان اس میں بچوں کا تو کوئی قصورہے ہی نہیں، وہ جو سنیں گے وہی بولیں گے نا۔ان کے کانوں میں میں ارد گرد سے اسی زبان کی آواز آتی ہے کیوںکہ زیادہ تر ذرایع ابلاغ پر بھی یہی استعمال ہوتی ہے۔ ٹی وی، ریڈیو کی نشریات ہوں، یا پھر آج کل کے ڈیجیٹل دور میں جو مواد فون اور کمپیوٹر پر دستیاب ہو۔

روایت پسندوں کے لیے یہ بات خاصی ناپسندیدہ بھی ہے اور پریشان کن بھی۔ ان کے خیال میں اردو زبان میں دوسری زبان کے الفاظ کی پیوند کاری سے زبان کا حسن اور اس کا خالص پن بگڑجاتا ہے۔ اردو زبان میں الفاظ کے ہوتے ہوئے متبادل کے طور پرکسی دوسری زبان کی آمیزش کا بڑھتا ہوا رواج انھیں اس لیے فکر مند کرتا ہے کہ اس طرح آہستہ آہستہ اردو میں سے ان الفاظ کا استعمال متروک ہو جائے گا اور نئی نسل یہ الفاظ ہی بھول جائے گی۔  انگریزی الفاظ کی شمولیت ہماری زبان کو نقصان پہنچا رہی ہے یا اس کی ترویج کر رہی ہے اس بارے میں کوئی حتمی رائے قائم نہیں ہو سکی۔

اصل مسئلہ یہاں پیدا ہوتا ہے کیونکہ عوام الناس میں بچوں کو بھی شامل کر دیا جاتا ہے جب کہ دیگر دنیا میں میں بچوں کے لیے مواد یا ان کی اس تک رسائی ان کی عمراور سمجھ بوجھ کے مطابقت رکھتی ہے جب کہ ہمارے ہاں اس کا بالکل خیال نہیں رکھا جاتا۔

یہ بات صرف پڑھنے والے مواد کی حد تک محدود نہیں ہے بلکہ ڈیجیٹل کانٹینٹ میں بھی یہی مسائل درپیش ہیں۔ اخبارات اور رسائل کی حد تک تو اب بھی بچوں کے لیے مخصوص مواد چھاپا جاتا ہے ، جو اصلاحی بھی ہوتا ہے اور تفریحی بھی۔

اسی طرح ڈیجیٹل کانٹیکٹ میں بھی بچوں کے لیے تعلیمی اور تفریحی، بہت معیاری مواد اردو میں موجود ہے۔

ذرایع ابلاغ کے ذریعے آگاہی ایک بہت ہی مشکل کام ہے اور اس کو بہت سوچ سمجھ کر انجام دینا چاہیے۔ خاص طو پر اگر اس کا تعلق اپنی نئی نسل کی تربیت اورکردار سازی سے ہو کیوںکہ الفاظ کا چناؤ، انداز بیاں اور زبان کا انتخاب بچوں کے ذہنوں پر بہت گہرا اثر ڈالتا ہے۔ منگلش میں یا ایسا انداز تکلم جس میں الفاظ کو برے انداز میں ادا کیا گیا ہو یا توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہو، اس کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔

سب سے پہلا حل صحیح زبان کی بنیاد رکھنا ہے اور یہ کام گھر سے شروع کرنا چاہیے۔ جو بچے اسکول جاتے ہیں خاص طور پر جہاں انگریزی پڑھائی جاتی ہے یا جو جہاں پر تمام مضامین انگریزی میں ہوتے ہیں ان کو تو انگریزی آ ہی جاتی ہے۔ محنت ان کے لیے اردواور اپنی دیگر مادری زبانیں اور علاقائی زبانوں پہ کرنی چاہیے۔

بچوں کو ان زبانوں میں مواد سے زیادہ سے زیادہ روشناس کروانا چاہیے ، چاہے گانے ہوں ، لوریاں ہوں ،کہانیاں یا ٹیلی ویژن پر چلنے والے بچوں کے لیے مناسب پروگرام اور انٹرنیٹ پر انھیں کی عمرکی مناسبت سے مواد یہ ذمے داری والدین اور اساتذہ دونوں کی ہے ۔

ان زبانوں میں کتابیں رسالے بچوں کو لاکردیں ، ان سے بات ان زبانوں میں کریں ، جب کوئی وہ لفظ غلط بولیں تو ان کی اصلاح کریں۔ ٹیلی ویژن پر تو چونکہ اب بچوں کے لیے کوئی مخصوص پروگرام نہیں ہیں تو کیا یہ ضروری ہے کہ بچے آپ کے ساتھ بیٹھ کر ٹی وی دیکھیں؟ خود دیکھنے کے لیے کوئی ایسا وقت چنیں جب بچے نہ ہوں، انٹرنیٹ پر پیرنٹل کنٹرولزکا استعمال سیکھیں اورکریں۔ اردو میں بہت اچھا مواد موجود ہے۔ جب وہ چھوٹے ہوں تو وہ ڈھونڈ کر ان کو دکھائیں، اور ان کے ساتھ بیٹھ کر دیکھیں۔ ایک بہت بڑا مسئلہ یہ ہے کہ والدین ٹیلیفون یا کمپیوٹر ہاتھ میں دے دیتے ہیں اور یہ نہیں دیکھتے کہ بچے کیا دیکھ رہے ہیں کیا سیکھ رہے ہیں۔ اس مسئلہ کا حل تو سب کے اپنے ہاتھ میں ہے ۔

اس سے اگلی سطح آواز بلند کرنے کی ہے۔ اپنے بچوں کے اسکولوں پر زور دیں کہ وہ اردو اور مقامی زبانیں اپنے بچوں کے نصاب میں بھی شامل کریں اور عام گفتگو میں بھی۔ اخبارات کو خط لکھیں اور اداروں سے کہیں کہ وہ وہ ان زبانوں میں بچوں کے لیے زیادہ سے زیادہ زیادہ مواد لکھوائیں اور چھاپیں۔

اس کے علاوہ، جدت سے خوفزدہ نہ ہو… اگر پیغام پہنچانے کے لیے کچھ دوسری زبان کے الفاظ کا استعمال کیا جا رہا ہے جو کہ عام فہم ہیں تو اس میں کوئی ایسا حرج بھی نہیں خاص طور پراگر وہ الفاظ دائرہ تہذیب میں ہوں۔ کسی غیر زبان کا زبردستی تسلط یقینا فہم کو نقصان پہنچاتا ہے، اس سلسلے میں جو بتدریج بگاڑ آیا ہے ، اس کے سدھارکے لیے بھی معاشرے کے مختلف حلقوں کو مل کرکام کرنا ہوگا۔