خیبر پختونخوا کے ضلع سوات کی تحصیل خوازہ خیلہ کے گاؤں چلیار میں چھٹیاں کرکے مدرسے آنے والے کم عمر طالب علم فرحان کی اساتذہ کے مبینہ تشدد سے موت واقع ہونے کے دلخراش واقعے کے بعد مدرسے کو سیل کرکے 300 طلبہ کو ان کے والدین کے حوالے کر دیا گیا۔
ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر (ڈی پی او) سوات محمد عمر نے بتایا کہ اساتذہ کے تشدد سے طالب علم کی موت افسوس ناک واقعہ ہے، واقعے کی اطلاع ملنے کے بعد پولیس نے چابک دستی سے کام کیا، پولیس کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا گیا۔
ڈی پی او محمد عمر نے بتایا کہ فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) میں 4 ملزمان نامزد ہیں، جن میں سے 2 اب تک گرفتار ہوچکے ہیں، مزید 9 افراد کو بھی گرفتار کیا جا چکا ہے۔
ڈی پی او کے مطابق علاقے میں یہ مدرسہ غیر قانونی طور پر چلایا جارہا تھا، جسے سیل کردیا گیا ہے، مدرسہ کے 300 طلبہ کو پولیس نے اپنی تحویل میں لے کر والدین کے حوالے کردیا ہے۔
لاہور میں الیکٹرک بس کے بعد اب الیکٹرک ٹرام بھی چلے گی
انہوں نے کہا کہ یہ دلخراش واقعہ ہے، پولیس کسی سیاسی دباو میں نہیں آئے گی، اور قانون کے مطابق مقدمے کو منطقی انجام کی جانب لے کر جائے گی۔
یاد رہے کہ گزشتہ روز سوات میں پیش آنے والے دلخراش واقعے میں اساتذہ کے بہیمانہ تشدد سے طالب علم فرحان کی موت واقع ہوگئی تھی، جس کے بعد علاقہ مکینوں کی بڑی تعداد نے مدرسے کی انتظامیہ کیخلاف احتجاج بھی کیا تھا۔
اسسٹنٹ کمشنر خوازہ خیلہ نے چلیار میں مدرسہ سیل کر دیا تھا، ایف آئی آر میں نامزد دو ملزمان گرفتار ہیں، تاہم مرکزی ملزم محمد عمر تاحال روپوش ہے، علاقہ عمائدین نے مرکزی ملزم کی گرفتاری کے لیے احتجاج کرتے ہوئے کالام اور مٹہ جانے والی شاہراہ بند کردی تھی، اور مقدمے میں نامزد تمام ملزمان کو گرفتار کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
فرحان کے ہم جماعت (جو شدید صدمے میں تھا) نے بتایا تھا کہ فرحان چند دن غیر حاضر رہا تھا اور ابھی واپس آیا تھا، اساتذہ نے اسے بہت زور سے مارنا شروع کر دیا، بعد میں اسے ایک کمرے میں لے جا کر مار پیٹ جاری رکھی، مجھے پانی لانے کے لیے بلایا گیا، اُس نے تھوڑا سا پانی پیا، پھر اپنا سر میری گود میں رکھ دیا، اور خاموش ہو گیا۔